آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن دائر کی گئی ہے۔ یہ عرضی جماعت کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر و دیگر مرکزی ذمہ داران مولانا شفیع مدنی اور انعام الرحمن خان کے ذریعے داخل کی گئی ہے۔ عرضی میں نئے ترمیمی قانون پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ترمیمات ، شہریوں کے بنیادی حقوق کے سراسر خلاف اور ہندوستان میں وقف کے مذہبی اور فلاحی کردار کو متاثر کرنے والی ہیں ۔ عرضی میں بھارتی آئین کی دفعہ 14، 15، 16، 25، 26 اور 300 اے کے خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انھیں ختم کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔
پٹیشن میں اٹھائے گئے اہم نکات:
1: بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا مسئلہ:
اس ترمیم شدہ ایکٹ نے وقف کی تعریف اور اس کی بنیادی ساخت کو بدل دیا ہے۔ وقف پر غیر ضروری پابندیاں لگا دی گئی ہیں کہ کون وقف کر سکتا ہے اور ان کا انتظام و انصرام کیسے کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر اب وقف کنندہ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کم سے کم پانچ سال تک اسلام کا پیروکار رہا ہے جبکہ اسلام میں وقف کنندہ کے لیے ایسی کوئی بھی شرط نہیں ہے۔ یہ غیر ضروری شرط براہ راست آرٹیکل 25 اور 15 کے خلاف ہے جس میں مذہبی آزادی اور امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔
2: وقف بورڈ کی خود مختاری پر حملہ:
اس نئے قانون کے ذریعے وقف بورڈ میں منتخب افراد کی جگہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ عہدیداروں کو شامل کرنے کا راستہ کھول دیا گیا ہے جن میں غیر مسلم اور وقف کے لیے مطلوبہ فقہی مسائل سے ناواقف افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں ۔ یہ قانون بنیادی طور پر ملک میں مختلف مذہبی طبقات کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے لیے دیئے گئے حق کے خلاف ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس نئے قانون میں سی ای او کے لیے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے جس سے بورڈ میں مسلمانوں کی نمائندگی کے شدید طور پر متاثر ہونے کا امکان ہے ۔
3: وقف املاک پر ناجائز قبضہ جات کا مسئلہ:
قانون کے سیکشن 3ڈی کو جلد بازی میں من مانے ڈھنگ سے متعارف کرایا گیا ہے تاکہ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے محفوظ یادگار قرار دی گئیں تمام وقف شدہ ملکیتوں کو وقف بورڈ کے کنٹرول سے نکال کر اے ایس آئی کی ملکیت بنایا جا سکے چاہے ان مقامات کی تاریخی ومذہبی حیثیت و اہمیت کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ یہ شق بنیادی طور پر قدیم یادگاروں اور آثار قدیمہ کے ایکٹ 1958 کے سیکشن 6 کو ختم کردیتی ہے جوکہ وقف املاک سے متعلق ہے ۔ مزید براں اس قانون کی وجہ سے تجاوزات کرنے والوں کو وقف اراضی پر منفی قبضہ کرنے کے لیے دعویٰ کرنے کا حق مل جاتا ہے۔ جس سے مسلمانوں کے وقف املاک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
4: کمیونٹی کنسلٹیشن کی ناکامی:
ترامیم کی حساسیت کے باوجود اس بل کو جلد بازی میں منظور کیا گیا ۔ منصفانہ طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمانی کارروائی کے دوران سیکشن 3ڈی اور 3 ای جیسی تبدیلیاں آخری وقت میں شامل کی گئیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مختلف مسلم تنظیموں بشمول جماعت اسلامی ہند نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اس قانون پر اپنے اعتراضات درج کرائے تھے مگر انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ اسٹیک ہولڈرز اور وقف سے متعلق تنظیموں و افراد کی شمولیت کو نظر انداز کرکے قانون بنانا، مسلمہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔
اضافی قانونی دلائل:
وقف بائے یوزر کی شق کو ختم کردیا گیا ہے جبکہ رام جنم بھومی بابری مسجد کیس و دیگر کئی سابقہ عدالتی فیصلوں میں یہ بات موجود ہے کہ استعمال اور تاریخی تسلسل کو بنیاد بنا کر فیصلہ کیا جانا چاہئے ۔ لال شاہ بابا درگاہ، شیخ یوسف چاولہ اور رامجس فاؤنڈیشن کے فیصلوں میں بھی یہ کہا گیا کہ مذہبی اوقاف کو کمیونٹی کے استعمال اور تاریخی تسلسل کے حوالے سے پرکھا جانا چاہئے نہ کہ حکومتی رکارڈ کو بنیاد بنا کر۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف جماعت اسلامی ہند بھی سپریم کورٹ پہنچی ،پٹیشن میں کئی اہم نکات اٹھائے

Leave a comment
Leave a comment